Friday, August 15, 2014

موت کے کنویں کے گرد گھومتی پاکستانی سیاست



کہتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں ایک بڑا ہی باکمال کرتب باز تھا ۔۔۔ اس کی پٹاری میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا موجود ہوتا جو سامنے والے کو حیران کر دیتا ۔۔۔ کبھی ٹوپی سے کبوتر نکالتا ۔۔۔ کبھی ہاتھ کی جنبش سے انڈے کو مرغی بنا دیتا ۔۔۔ کبھی کھڑے کھڑے انسان کو غائب کر دیتا ۔۔۔ غرضیکہ اس کے تماشے سے کوئی بھی خالی ہاتھ نہ جاتا ۔۔۔ سبھی کو اپنی پسند کا کوئی نہ کوئی ایسا ’آئٹم‘ ملتا جس پر وہ تالی پیٹ پیٹ کر ہاتھ سرخ کر لیتے۔۔۔ اور کرتب باز کو تالیاں کی اس گونج کی لت پڑ گئی تھی۔

مگر زمانے کے ساتھ کرتب سازی کے انداز بھی بدل گئے۔۔۔ اب کرتب باز کے ہاتھ کی کرامات سے لوگ اتنی آسانی سے محظوظ نہ ہوتے۔۔۔ انہیں ٹوپی سے کبوتر نکالنے یا پھر انڈے کو مرغی بنانے میں جیسے دلچسپی نہ رہی۔۔۔ وہ کچھ مختلف اور مزیدار آئٹم چاہتے تھے۔۔۔ اور کرتب باز جو اب تک اپنے ہاتھ کی کرامات سے لوگوں کو مبہوت کیے ہوئے تھا، اس کی پٹاری میں تمام گر آہستہ آہستہ ڈھیلے پڑتے جا رہے تھے ۔۔۔

نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ کرتب ساز کو روٹی کے لالے پڑ گئے۔۔۔ پھر کرتب باز کے ’استاد‘ نے ایک انوکھا مشورہ دیا۔۔۔ کرتب باز نے لکڑی کے چند بڑے ٹکڑے اکٹھے کیے۔۔۔ ایک موٹر سائیکل خریدی اور ’موت کا کنواں‘ بنا ڈالا۔۔۔ وہ ’موت کا کنواں‘ مختلف شہروں میں لے جانے لگا ۔۔۔ مختلف شہروں میں جاتا، خیمے لگاتا اور لکڑی کے پھٹوں کا ایک گہرا کنواں کھڑا کر دیتا۔۔۔ موت کے کنویں میں جب وہ دونوں ہاتھ موٹر سائیکل سے ہٹا کر موٹر سائیکل کے چکر لگاتا تو لوگ مبہوت رہ جاتے۔۔۔ یہ کرتب ان کے لیے نیا تھا۔۔۔ اتنا نیا اور انوکھا کہ لوگ کنویں کے اوپر لکڑی کے بنے اس عارضی انتظام پر بھی جوق در جوق کھڑے ہونے سے گریز نہ کرتے جو موٹر سائیکل کے ہر چکر کے ساتھ یوں لرزتا، گویا ابھی گر ہی پڑے گا۔۔۔ ادھر کرتب باز موٹر سائیکل پر چکر لگانا شروع کرتا، ادھر لوگ نعرہ ِمستانہ بلند کرتے اور تالیاں بجا بجا کر بالکل ویسے ہی بے حال ہو جاتے جیسے گذشتہ چند ہفتوں سے یہ قوم ’آزادی‘ اور ’انقلاب‘ کے نعرہ ِ مستانوں سے بے حال ہوئی پڑی ہے۔۔۔

بھلا کسی قوم کے لیے اس سے بڑا تازیانہ کیا ہوگا کہ آزادی کے 67
ویں جشن پر وہ ’آزادی‘ اور ’انقلاب‘ جیسی کرامات کو جی ٹی روڈ کے قافلوں اور بلٹ پروف کنٹینروں پر ڈھونڈتی پِھر رہی ہے۔۔۔ یا پھر جمہوریت کے تسلسل پر سرشار اور نہال حکومت کے اُن ایوانوں میں تلاش کر رہی ہے کہ جنہیں آج بھی جمہوریت گھر کی اس لونڈی جیسی لگتی ہے جس پر لگے ’جمہوریت‘ کے خوش کن لیبل کے بعد اسے اپنی مرضی سے چلایا جاتا ہے۔۔۔ اور قوم خوش ہو جاتی ہے کہ چلو نام کی ہی سہی، جمہوریت تو ہے۔۔۔

تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ بلند کرنا غلط نہیں۔۔۔ ایک کے بعد ایک مسئلے میں گھری اس قوم کی نوجوان اکثریت کے خیال میں پاکستان میں آمریت میں لپٹی جمہوریت اور جمہوریت میں لپٹی آمریت کی چھپن چھپائی کا کھیل بہت ہو چکا اور بظاہر انہیں بھی اس قوم کا مستقبل انقلاب کے خوش کن وعدوں میں ہی پنہاں دکھائی دیتا ہے۔۔۔ مگر وہ یہ فراموش کر چکے ہیں کہ انقلاب کینیڈا سے برآمد نہیں کیا جاتا اور نہ ہی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے وعدوں پر انقلاب اور آزادی کی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔۔۔

افسوس تو یہ بھی ہے کہ ’انقلاب‘ اور ’آزادی‘ کا نعرہ بلند کرنے والے ہمارے لیڈر یہ نہیں بتاتے کہ جس تبدیلی کے وہ خواہاں ہیں اور جس نظام کو بدلنے کا وہ وعدہ کرتے ہیں، اس کے خد و خال کیا ہوں گے؟ ملک سے غربت کیسے مٹائی جائے گی یا بجلی کے بحران کو جادو کی کونسی چھڑی سے ختم کیا جائے گا؟ رشوت کو کیسے ختم کیا جائے گا اور ملک کو آناً فاناً امن کا گہوارہ کیونکر بنایا جا سکے گا۔۔۔ انتخابی اصلاحات کیسے نافذ کی جائیں گی اور اگر انتخابی اصلاحات کے بغیر دوبارہ انتخابات کرائے گئے تو ان کے نتائج کو کیوں قبول کیا جائے گا؟

افسوس تو اس بات پر بھی بجا ہے کہ  2013ء
میں عام انتخابات میں اکثریت لینے والی جماعت بھی روایتی سیاست کی روش سے آگے نہ بڑھ سکی اور یہ فراموش کر گئی کہ اس قوم اور ملک کی سوچ ماضی کی نسبت بدل گئی ہے۔ لوگوں کا سیاسی شعور بڑھ رہا ہے، ملکی آبادی کی اکثریت نوجوان طبقے پر مشتمل ہے جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے گھبراتا نہیں۔۔۔ بے شک یہ آواز ابھی سوشل میڈیا، فیس بک اور ٹوئٹر تک ہی محدود ہے مگر آنے والے سالوں میں اسے دبائے رکھنا ممکن نہ ہوگا۔۔۔

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو شاید یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان میں موروثی سیاست کی بنیاد میں چھوٹی چھوٹی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیںاور آنے والے سالوں میں ملک کی اکثریت بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے ’جانشینوں‘ کو ٹھنڈے پیٹ برداشت نہیں کرے گی۔۔۔ عوام اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ ملک کے ’بڑے لیڈروں‘ کی ان اولادوں کو، جنہوں نے کبھی پارلیمنٹ کی شکل نہیں دیکھی اور جنہوں نے کبھی سیاست کے خارزار میں قدم تک نہیں رکھا، اربوں روپوں کی گرانٹوں کے پروگراموں کا روح ِرواں بننے پر یا پھر کسی بڑی سیاسی جماعت کے چئیرمین بنائے جانے پر سوال اٹھاتے ہیں۔۔۔ اور پوچھتے ہیں کہ اہم سیاسی جماعتوں کے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے لیے واحد اہلیت بڑے لیڈر کی اولاد ہونا ہی کیوں ٹھہری ہے؟

میڈیا ہمیشہ کی طرح لمحہ بہ لمحہ کوریج کر رہا ہے۔۔۔ تین دن سے تجزیہ نگار جیسے ان ٹی وی چینلز پر ہی بیٹھے ہیں۔۔۔ تبصرے جاری ہیں اور پیش گوئیاں بھی۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ تمام ٹی وی چینلز نے گویا غیر جانبداری کو ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور  کھُل کر حکومت کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں یا پھر انقلابیوں کی آواز سے آواز ملا رہے ہیں۔۔۔

پاکستان کی 67
برس کی تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔۔۔ طرح طرح کے کرتب باز آتے رہے، اپنی اپنی ٹوپی سے کبھی کبوتر تو کبھی خرگوش نکالتے رہے اور ہمارا جی بہلاتے رہے۔۔۔ موت کے کنویں میں کہیں بہت پہلے جمہوریت، جمہوری اقدار، امانت، صداقت، دیانت جیسے اوصاف غرق ہو گئے تھے۔۔۔ جو بچی کچھی ’جمہوریت‘ ہے، کچھ دوست اسے بھی مٹانے کو بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ اور یہ فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ مداری کوئی بھی نیا تماشا ’استاد‘ کے آشیرباد کے بغیر لگانے کی ہمت نہیں کرتا۔۔۔

موت کے کنویں کا میدان ایک مرتبہ پھر سج چکا ہے۔۔۔ کرتب باز بھی ہیں، موٹر سائیکل بھی اور تماش بینوں کی تو کوئی کمی نہیں۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سیاسی تماشے کا نتیجہ جو بھی ہو، تماش بینوں کا کردار ہمیشہ کی طرح واضح ہے ۔۔۔ وہ نعرے لگائیں گے، تالیاں پیٹیں گے اور چند دنوں بعد ایک نئے تماشے کی آس میں پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔۔۔

نوٹ: اس بلاگ میں درج خیالات سے ادارہ وائس آف امریکہ کا کوئی تعلق نہیں۔

Monday, May 26, 2014

پاکستانی میڈیا کا ’طوفان ِ بدتمیزی‘۔۔۔



گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں میڈیا کے چند بڑے اداروں کے باہمی اختلافات نامعقولیت کی تمام ممکنہ حدود عبور کر چکے ہیں۔ یوں تو پاکستان میں صحافت میں بڑے گروپوں کی لڑائی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی روزنامہ جنگ اور نوائے وقت کے درمیان ٹھنی رہتی تھی مگر ان کی لڑائی کی ہانڈی بیچ چوک میں ایسے نہیں پھوٹی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اخبارات کی اشاعت محدود تھی جبکہ ٹی وی سکرین پر لامحدود ناظرین تک پہنچنا بہت آسان ہے۔

بعض اوقات آسانیاں آپ کے لیے زیادہ مشکلات کا سبب بھی بنتی ہیں اور ہمارے میڈیا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ آزادی جو کئی دہائیوں کی قربانیوں کے بعد ملی، ٹی وی چینلز کی کرامات سے کب مادر پدر آزادی میں ڈھل گئی، پتہ ہی نہ چلا۔ کہاں وہ وقت تھا جب اخبار میں چھپنے والی خبر کا ایک ایک لفظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا تھا اور کہاں یہ وقت کہ ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کرنے کے لیے پہلی شرط چرب زبانی اور بدتمیزی ٹھہری ہے۔ یعنی جو جتنا منہ پھٹ اور بدتمیز، اتنی ہی پروگرام کی ریٹنگز زیادہ۔

ریٹنگ کی اس مکروہ دوڑ میں بالآخر کسی نہ کسی چینل نے تو منہ کے بل گرنا ہی تھا۔ جیو ہی سہی۔۔۔ مگر جیو کے منہ کے بل گرنے میں ریٹنگ کی دوڑ سے زیادہ وہ زعم شامل تھا، جہاں بڑے بڑے بُرج بنانا، بگاڑنا، توڑنا اور جوڑنا گویا میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا تھا۔ جہاں چند اداروں کو میڈیا ہاؤس سے زیادہ ’کنگ میکر‘ بننا زیادہ اچھا لگا۔ شاید اسی لیے سینئیر صحافی حامد میر پر حملے کے بعد کی جانے والی رپورٹنگ میں نہ کسی کو آداب ِ صحافت یاد رہے اور نہ ہی اداروں کا تقدس مطمع ِ نظر رہا۔۔۔

میڈیا کا یہ مکروہ کھیل یہیں تک محدود نہ رہا بلکہ الیکڑانک میڈیا کے اس اصل اورغلیظ چہرے کی ایک جھلک کا نقطہ ِ آغاز ثابت ہوا جسے بظاہر لیپا پوتی کرکے بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔ معلوم ہوا کہ میڈیا ایتھکس، آزادی ِ صحافت اور صحافتی اقدار جیسے الفاظ تو دل کے بہلاوے ہیں، پاکستانی میڈیا اصل میں ریٹنگ اور پیسے کا کھیل ہے۔۔۔ جو اس کھیل کو زیادہ عمدگی اور خوبصورتی سے کھیلے گا، جیت اسی کا مقدر ہوگی۔۔۔



کہاں ایک ڈیڑھ ماہ قبل یہ وقت تھا کہ کسی بھی نیوز چینل پر دوسرے چینل کا نام لینا ’ممنوعات‘ میں شامل تھا۔ نیوز چینل دوسرے چینل سے متعلق خبر ’ایک نجی ٹیلی ویژن‘ یا ’ایک نجی ٹیلی ویژن سے منسلک صحافی‘ کرکے چلاتا تھا۔ کہاں یہ عالم کہ ایک دوسرے کے نام اچھالے جا رہے ہیں۔ چند چینلز دوسرے  چینلز کے صحافیوں کے ’اوصاف ِحمیدہ‘ پر سیاق و سباق کے ساتھ روشنی ڈالنے کا نیک عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سارے تماشے میں اتنی ’اوور ایٹنگ‘ شامل ہو چکی ہے کہ ایک عام ناظر بھی جسے گذشتہ چند سالوں میں میڈیا میں سنسنی خیز اور ہندی گانوں کی طرز پرچٹ پٹی خبریں دیکھنے کا شوق ہو چلا تھا، گھبرا گیا۔۔۔

دوسری طرف یہ سوال بھی اپنی جگہ انتہائی اہم ہے کہ ادارتی سمجھ بوجھ کے فقدان کا خمیازہ (آئی ایس آئی پر الزام کو چند ماہرین جیو کی سوچی سمجھی تدبیر اور بعض تو ’ایجنڈا‘ بھی قرار دیتے ہیں)، جو یقیناً جیو سے منسلک چند اعلیٰ عہدیداروں کے آشیرباد کے بغیرممکن نہیں، جیو سے وابستہ وہ آٹھ ہزار کارکن کیوں دیں جن کا اس تمام واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں؟ جو روزانہ پوری ایمانداری سے اپنا کام کرکے رزق ِ حلال کماتے ہیں؟ تو پھر جیو کی دوکان کیوں بند کی جائے؟

طاقت کے نشے میں سرشار میڈیا ہاؤسز کو ان ہزاروں کارکنوں کی نوکریوں سے کیا مطلب جو جیو کی جگہ لینے کو بے تاب بیٹھے ہیں؟ یوں جیو کی گرتی ہوئی دیوار کو اپنے تئیں ایک دھکا دینے کے ’نیک عمل‘ میں چند بڑے میڈیا ہاؤسز نے اپنا کار ِخیر ڈالنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ شائستہ لودھی کے پروگرام نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پاکستان کے ان میڈیا ہاؤسز کا کام بظاہر آسان کر دیا جو جیو کو بند کراکے ہی دم لینا چاہتے ہیں۔۔۔ گو کہ وہ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ پورا گاؤں بھی مر جائے تو مراثی کا بیٹا چوہدری نہیں بن سکتا۔۔۔ گویا جیو کے ڈھے جانے سے، آٹھ ہزار ملازمین کے منہ سے نوالہ چھیننے کے بعد بھی اے آر وائی جیسے چینلز کے لیے میڈیا کا ’چوہدری‘ بننا محض دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔۔۔

مگر میڈیا ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی کی روش سے ہٹنے کو تیار نہیں۔۔۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ نے آئی ایس آئی اور فوج سے مصافحہ کرنے کے لیے معافی شائع کی ہے مگر کیا یہ معافی اس دکھ کا مداوا ثابت ہو سکے گی جو میڈیا کی جانب سے بغیر کسی ثبوت کے لگایا گیا؟ کیا یہ معافی پاکستان میں میڈیا کے ایک نئے اور مثبت باب کا محرک بن سکے گی جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے؟ کیا یہ معافی ملک میں حقیقتاً اس صحافت کو فروغ دے سکے گی جس کے لیے کتنے ہی صحافیوں نے قربانیاں دیں؟

آنے والا مورخ رات کو آٹھ بجے ہر نیوز چینل پر اپنی اپنی دکان سجانے والے مداری کو کس نام سے یاد کرے گا، معلوم نہیں ۔۔۔ مگر یہ سچ ہے کہ میڈیا کی موجودہ صورتحال ان سبھی کے لیے ناقابل ِ برداشت بنتی جا رہی ہے جو ملک میں صحافت کو آگے جاتا دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ جو محض ایک غلطی کی سزا پر ایک بڑے میڈیا گروپ کو بند کرنے کے حامی نہیں ہیں اور جو اس واقعے کو ایک ایسی غلطی کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کا اعتراف کرنے کے بعد پاکستان میں میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینا ممکن ہو سکے گا۔۔۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں؟


نوٹ: اس بلاگ میں درج خیالات مدیحہ انور کے اپنے ہیں اور اس سے ادارہ وائس آف امریکہ کا کوئی تعلق نہیں۔